- الاسلامية
- بحث القرآن الكريم بمختلف اللغات
- الدعاء من الكتاب والسنة
- مشكل إعراب القرآن
- مفردات ألفاظ القرآن الكريم
- تلاوة القرآن الكريم
- كتاب عدد آي القرآن وكلمه وحروفه ومعرفة خموسه وعشوره ومكيه ومدنيه
- ألف سؤال وجواب في القرآن
- مشروع القرآن الكريم
- أذكار وأدعيـة الصلاة
- كيف تحفظ القرآن
- حفظ سورة البقرة
- كتاب فقه السنة
- صحيح البخاري
- تغريدات #السيرة_النبوية
- قصص اﻷنبياء
- تاريخ الخلفاء للسيوطي
- العلاج بالأغذية والأعشاب
- منتخب الكلام في تفسير الأحلام
- ملاحظاتكم - الشبكة الاسلامية
- أدعية مختارة باللغتين العربية والانجليزية
- الثقافية
- الجغرافية
- الاجتماعية
- آراء
- وظائف
- خريطة الموقع
- اتصل بنا
- التسجيل
قرآن کریم کی ایک آیت
Al-Baqarah البقرة Aya 282:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب کسی مقرر مدت کے لیے تم آپس میں قرض کا لین دین کرو، تو اسے لکھ لیا کرو فریقین کے درمیان انصاف کے ساتھ ایک شخص دستاویز تحریر کرے جسے اللہ نے لکھنے پڑھنے کی قابلیت بخشی ہو، اسے لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہیے وہ لکھے اور املا وہ شخص کرائے جس پر حق آتا ہے (یعنی قرض لینے والا)، اور اُسے اللہ، اپنے رب سے ڈرنا چاہیے کہ جو معاملہ طے ہوا ہو اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے لیکن اگر قرض لینے والا خود نادان یا ضعیف ہو، املا نہ کرا سکتا ہو، تواس کا ولی انصاف کے ساتھ املا کرائے پھر اپنے مردوں سے دو آدمیوں کی اس پر گواہی کرا لو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ ایک بھول جائے، تو دوسری اسے یاد دلا دے یہ گواہ ایسے لوگوں میں سے ہونے چاہییں، جن کی گواہی تمہارے درمیان مقبول ہو گواہوں کو جب گواہ بننے کے لیے کہا جائے، تو انہیں انکار نہ کرنا چاہیے معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، میعاد کی تعین کے ساتھ اس کی دستاویز لکھوا لینے میں تساہل نہ کرو اللہ کے نزدیک یہ طریقہ تمہارے لیے زیادہ مبنی بر انصاف ہے، اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے، اور تمہارے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم رہ جاتا ہے ہاں جو تجارتی لین دین دست بدست تم لوگ آپس میں کرتے ہو، اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں، مگر تجارتی معاملے طے کرتے وقت گواہ کر لیا کرو کاتب اور گواہ کو ستایا نہ جائے ایسا کرو گے، تو گناہ کا ارتکاب کرو گے اللہ کے غضب سے بچو وہ تم کو صحیح طریق عمل کی تعلیم دیتا ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے
عربی زبان میں اس آیت پر جلالین ، القرطبی اور ابن کثیر کی تفسیر ملاحظہ کریں۔